
زہریلے عناصر نے جنم لیا۔ تاریخ کے ابتدائی ابواب سے لے کر آج کے جدید دور تک، انسان ان دو خطرناک جذبات کو اپنے دل سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔
جب ہم تخلیقِ آدم سے تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں، تو قابیل اور ہابیل کی کہانی سب سے پہلا انسانی قتل بیان کرتی ہے — جو حسد کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوا۔ اس ایک عمل نے انسانی ضمیر پر ایسا داغ لگا دیا جو آج تک مٹ نہیں سکا۔
تعصب کی مختلف شکلیں
تعصب صرف رنگ، نسل، یا مذہب تک محدود نہیں رہا — بلکہ یہ جنس، ذات، زبان، برادری، معاشرتی حیثیت اور سیاسی نظریات تک پھیلا ہوا ہے۔
دنیا کے ہر خطے میں اس کی مختلف شکلیں سامنے آتی ہیں:
مرد عورت سے تعصب کرتا ہے، عورت مرد سے؛
گورے کالوں سے، کالے گوروں سے؛
امیر غریب سے اور تعلیم یافتہ غیرتعلیم یافتہ سے؛
اور سب سے بڑھ کر — مذہب کے نام پر انسان انسان سے نفرت کرتا ہے۔
یہی وہ بیماری ہے جو معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں تعصب کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، سرائیکی، مہاجر — ہر گروہ کو کسی دوسرے سے کوئی نہ کوئی شکوہ ضرور ہے۔
ہندو معاشرے میں ذات پات کی تقسیم نے “اچھوتوں” کو جنم دیا، جنہیں نہ صرف عبادت گاہوں میں داخلہ منع تھا بلکہ ان کے ہاتھ کا پانی پینا بھی ناپاک تصور کیا جاتا تھا۔
اور یہی تعصب، پاکستان بننے کے بعد، مسلمانوں کے رویوں میں مسیحیوں کے لیے منتقل ہو گیا۔
پاکستان میں مسیحیوں سے تعصب
1947 کے بعد پاکستان میں مسیحیوں کو جن تعصبات کا سامنا کرنا پڑا، وہ صرف مذہبی نہ تھے، بلکہ معاشی اور سماجی بھی تھے۔
کئی مقامات پر:
مسیحیوں کو مسلمانوں کے کنوؤں یا نلکوں سے پانی لینے کی اجازت نہیں تھی۔
ان کے برتن الگ رکھے جاتے تھے۔
عبادات میں روکا جاتا تھا۔
اچھی رہائش یا کپڑوں پر اعتراض کیا جاتا تھا۔
اگر کوئی مسیحی معاشی ترقی کر لے، تو اس پر حسد کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ تعصب صرف ذاتی حد تک نہیں، بلکہ ادارہ جاتی سطع پر بھی نظر آتا ہے — جہاں نوکریوں، ترقیوں، تعلیم، اور انصاف میں برابری کے مواقع کم ہی نظر آتے ہیں۔
بائبل کی تعلیمات: سب برابر ہیں
خُدا کا کلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر انسان اُس کی نظر میں برابر ہے، اور ہمیں ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہیے۔
مسیحیت، تعصب کی نفی اور برابری کی تلقین کرتی ہے:
“اب کوئی فرق نہیں رہا — نہ یہودی رہا نہ غیرقوم والا، نہ غلام نہ آزاد، نہ مرد نہ عورت، کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو۔”
— گلتیوں 3:28“کیونکہ خُدا طرفداری نہیں کرتا۔”
— رومیوں 2:11
ان آیات میں واضح ہے کہ نہ رنگ، نہ نسل، نہ جنس — کسی بھی بنیاد پر نفرت یا تعصب کی کوئی گنجائش نہیں۔
نتیجہ: کیا یہ سلسلہ کبھی رکے گا؟
پاکستان کو آزاد ہوئے 76 سال گزر چکے ہیں۔ لیکن اقلیتوں، خاص طور پر مسیحیوں کے خلاف تعصب کا رویہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ مذہبی رواداری، برابری، اور انصاف جیسے الفاظ آئین میں تو موجود ہیں، لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔
یہ بات افسوسناک ہے کہ جس برصغیر میں مختلف مذاہب اور قومیتوں نے صدیوں ساتھ گزارے، وہاں آج بھی تعصب اور نفرت جڑیں مضبوط کیے ہوئے ہیں۔ اور بسا اوقات یہ لگتا ہے کہ یہ رویے شاید صدیوں کے زخموں کا “بدلہ” سمجھے جا رہے ہیں — لیکن کیا یہ بدلہ، خدا کے کلام کی روشنی میں، جائز ہے؟
اُمید کا پیغام
ہمیں اپنی ذات سے شروع کرنا ہو گا۔
تعصب اور حسد کو صرف قانون سے نہیں، بلکہ دلوں سے نکالنا ہو گا۔
خُدا کے کلام، انصاف، اور محبت کی روشنی میں ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہو گا جہاں ہر انسان، چاہے وہ کسی بھی مذہب، رنگ، یا نسل سے ہو، برابری اور عزت کے ساتھ جئے۔
